جنسی مسائل
*آئین تربیت*
2⃣7⃣ *_جنسی مسائل_*
پارٹ نمبر 1/5
جنسى قوت انسان كى انتہائی قوى اور حساس جبلّتون ميں سے ہے يہ قوت انسان كے ليے بہت تعميرى ہے انسان كى نفسياتى اور جسمانى زندگى كے لئے اس كے اچھے يا برے اثرات مرتب ہوتے ہيں انسان كے بہت سے اعمال، يہاں تک كہ متعدد جسمانى اور نفسياتى بيماريوں كى بنياد يہى جبلّت ہوتى ہے اگر انسان كى پرورش عاقلانہ اور درست ہو تو يہ قوت انسان كى خوشى اور آرام كا ذريعہ بنتى ہے اور اگر تربيت ميں افراط يا تفريط ہو تو ممكن ہے سينكڑوں جسمانى اور نفسياتى نقصانات كا سبب بنے اور انسان كى دنيا و آخرت كو تباہ كردے
ايسا نہيں ہے كہ جنسى قوت بلوغت كے زمانے ميں پيدا ہوتى ہو بلكہ يہ بچپن ہى سے انسانى طبيعت ميں خوابيدہ ہوتى ہے اور مختلف شكلوں ميں اس كا ظہور ہوتا ہے چھوٹے بچے اپنے آلہ تناسل كو چھكر لذت محسوس كرتے ہيں اور اس سے ان كے اندر ايک تحرک كى سى كيفيت پيدا ہوتى ہے وہ والدين كے اظہار محبت اور بوسوں سے لذت محسوس كرتے ہيں وہ خوبصورتى اور بد صورتى كى طرف متوجہ ہوتے ہيں اور كبھى زبان سے اس كا اظہار بھى كرتے ہيں دو تين سال كى عمر ميں وہ لڑكے اور لڑكى ميں فرق سمجھنے لگتے ہيں اور بڑى توجہ اور جستجو سے ايک دوسرے كى شرم گاہ كو ديكھتے ہيں جب كچھ بڑے ہوجائيں تو وہاں تصويريں انہيں اپنى طرف كھينچتى ہيں وہ حيران ہو ہو كر ان كى طرف ديكھتے ہيں زبان سے فحش اور گندے مذاق كرتے ہيں اور ان پر خوش ہوتے ہيں جنس مخالف كى طرف انہيں كچھ كچھ ميلان پيدا ہوجاتا ہے اور انہيں اپنى طرف متوجہ كرنے كى كوشش كرتے ہيں كبھى كبھى وہ تصريحاً يا اشارة جنسى امور كے بارے ميں والدين سے سوال كرتے ہيں ماں باپ كى سرگوشيوں كى طرف وہ كان دھرتے ہيں اور ان كے كاموں پر نظر كرتے ہيں اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے گوشہ و كنار ميں بيٹھ كر راز و نياز كرتے ہيں ان سب چيزوں سے بخوبى واضح ہوتا ہے كہ جنسى قوت نابالغ بچوں ميں بھى موجود ہوتى ہے ليكن مبہم اور تاريک صورت ميں
بغير آگاہى اور كامل شعور كے ان كى توجہ اس كى طرف كھنچتى ہے ليكن انہيں معلوم نہيں ہوتا كہ وہ كيا چاہتے ہيں اس امر كى طرف ان كى توجہ ہوتى ہے كہ لذّت كہاں سے حاصل ہوتى ہے ليكن وہ يہ نہيں جانتے كہ يہ لذت كيسے حاصل كريں ؟ دس بارہ سال كى عمر تک بچے اسى حالت ميں ہوتے ہيں اور ان كى جنسى جبلّت پورى طرح سے بيدار نہيں ہوتى اور ايک ابہام كى سى كيفيت ہوتى ہے ليكن بارہ سے پندرہ سال كى عمر ميں وہ بڑى تيزى سے پروان چڑھتى ہے اور تقريبا بيدار ہوجاتى ہے
فرض شناس ماں باپ اپنے بچوں كى جنسى جبلّت سے لا تعلق نہيں رہ سكتے اور يہ نہيں ہوسكتا كہ وہ اس بارے ميں كوئی حكمت عملى وضع نہ كريں كيونکہ جنسى اعتبار سے تربيت دشوار ترين اور حساس ترين تربيتوں ميں سے ہے اس سلسلے ميں ذرّہ بھر اشتباہ يا غفلت بھى ممكن ہے بچوں كو برائی اور تباہى كى وادى كى طرف كھينچ لے جائے
ماں باپ كى توجہ اس امر كى طرف ہونى چاہيے كہ بلوغ سے پہلے بدنى اور فكرى رشد كے اعتبار سے بچے توليد نسل اور جنسى قوت كو عمل ميں لانے كى صلاحيت نہيں ركھتے اس ليے اللہ تعالى نے بلوغ سے پہلے ان كى جنسى جبلّت كو ان كى طبيعت ميں خفتہ و خوابيدہ ركھا ہوتا ہے بچوں كى انفرادى اور اجتماعى بھلائی بھى اس ميں ہے كہ بلوغ سے پہلے ان كى جنسى قوّت بيدار اور متحرک نہ ہو كيونكہ اگر جنسى قوت بلوغت سے پہلے اور جلدى ہى بيدار ہوجائے تو اس سے بچے كى زندگى بہت سى مشكلات كا شكار ہوجائے گى اور ہوسكتا ہے وہ اس كى بدبختى اور انحراف كے اسباب فراہم كرے
لہذا ماں باپ كو ہر اس علم سے سخت پرہيز كرنا چاہيے كہ جس سے بچوں كى جنس جبلّت كو تحريک ہوسكے اور وہ بيدار ہوسكے اور ان كے ليے ايسے حالات فراہم كريں كہ ان كی نشو و نما تدريجى طور پر اور فطرى لحاظ سے ہو والدين اگر عقل مند اور باتدبير ہوں تو وہ خود اس ضمن ميں تميز كرسكتے ہيں كہ كون سے كام مفيد ہيں اور كون سے مضر
ليكن ہم ياد دہانى كے طورپر كچھ باتيں بيان كرتے ہيں بچوں كى شرمگاہ پر ہاتھ پھيرنا ، وہاں پيار كرنا اخبار و جرائد كى خوبصورت اور ننگى تصويروں كو ديكھنا ، عشقيہ اور تحرک انگيز كانوں اور كہانيوں كو سننا، دوسروں كى شرم گاہ كى طرف ديكھنا يا اس پہ ہاتھ پھيرنا ، دوسروں كے حسن اور خوبصورت كى تعريف كرنا ، اور دوسروں كے ہر حصّہ بدن اور ننگى ٹانگوں كى طرف ديكھنا ماں باپ كى آپس ميں يا دوسروں سے معاشقہ بازى اور جنسى مذاق ، شہوت انگيز مناظر كو ديكھنا يا ان كے بارے ميں سننا اور اس طرح كے ديگر امور كو سرانجام دينا بچے كى جنسى قوت كو تحرک كرنے اور بيدا كرنے كا سبب بنتا ہے اور بچہ بھى ايسى لذت كے حصول كے بارے ميں سوچنے لگتا ہے
2⃣7⃣ *_جنسی مسائل_*
پارٹ نمبر 1/5
جنسى قوت انسان كى انتہائی قوى اور حساس جبلّتون ميں سے ہے يہ قوت انسان كے ليے بہت تعميرى ہے انسان كى نفسياتى اور جسمانى زندگى كے لئے اس كے اچھے يا برے اثرات مرتب ہوتے ہيں انسان كے بہت سے اعمال، يہاں تک كہ متعدد جسمانى اور نفسياتى بيماريوں كى بنياد يہى جبلّت ہوتى ہے اگر انسان كى پرورش عاقلانہ اور درست ہو تو يہ قوت انسان كى خوشى اور آرام كا ذريعہ بنتى ہے اور اگر تربيت ميں افراط يا تفريط ہو تو ممكن ہے سينكڑوں جسمانى اور نفسياتى نقصانات كا سبب بنے اور انسان كى دنيا و آخرت كو تباہ كردے
ايسا نہيں ہے كہ جنسى قوت بلوغت كے زمانے ميں پيدا ہوتى ہو بلكہ يہ بچپن ہى سے انسانى طبيعت ميں خوابيدہ ہوتى ہے اور مختلف شكلوں ميں اس كا ظہور ہوتا ہے چھوٹے بچے اپنے آلہ تناسل كو چھكر لذت محسوس كرتے ہيں اور اس سے ان كے اندر ايک تحرک كى سى كيفيت پيدا ہوتى ہے وہ والدين كے اظہار محبت اور بوسوں سے لذت محسوس كرتے ہيں وہ خوبصورتى اور بد صورتى كى طرف متوجہ ہوتے ہيں اور كبھى زبان سے اس كا اظہار بھى كرتے ہيں دو تين سال كى عمر ميں وہ لڑكے اور لڑكى ميں فرق سمجھنے لگتے ہيں اور بڑى توجہ اور جستجو سے ايک دوسرے كى شرم گاہ كو ديكھتے ہيں جب كچھ بڑے ہوجائيں تو وہاں تصويريں انہيں اپنى طرف كھينچتى ہيں وہ حيران ہو ہو كر ان كى طرف ديكھتے ہيں زبان سے فحش اور گندے مذاق كرتے ہيں اور ان پر خوش ہوتے ہيں جنس مخالف كى طرف انہيں كچھ كچھ ميلان پيدا ہوجاتا ہے اور انہيں اپنى طرف متوجہ كرنے كى كوشش كرتے ہيں كبھى كبھى وہ تصريحاً يا اشارة جنسى امور كے بارے ميں والدين سے سوال كرتے ہيں ماں باپ كى سرگوشيوں كى طرف وہ كان دھرتے ہيں اور ان كے كاموں پر نظر كرتے ہيں اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے گوشہ و كنار ميں بيٹھ كر راز و نياز كرتے ہيں ان سب چيزوں سے بخوبى واضح ہوتا ہے كہ جنسى قوت نابالغ بچوں ميں بھى موجود ہوتى ہے ليكن مبہم اور تاريک صورت ميں
بغير آگاہى اور كامل شعور كے ان كى توجہ اس كى طرف كھنچتى ہے ليكن انہيں معلوم نہيں ہوتا كہ وہ كيا چاہتے ہيں اس امر كى طرف ان كى توجہ ہوتى ہے كہ لذّت كہاں سے حاصل ہوتى ہے ليكن وہ يہ نہيں جانتے كہ يہ لذت كيسے حاصل كريں ؟ دس بارہ سال كى عمر تک بچے اسى حالت ميں ہوتے ہيں اور ان كى جنسى جبلّت پورى طرح سے بيدار نہيں ہوتى اور ايک ابہام كى سى كيفيت ہوتى ہے ليكن بارہ سے پندرہ سال كى عمر ميں وہ بڑى تيزى سے پروان چڑھتى ہے اور تقريبا بيدار ہوجاتى ہے
فرض شناس ماں باپ اپنے بچوں كى جنسى جبلّت سے لا تعلق نہيں رہ سكتے اور يہ نہيں ہوسكتا كہ وہ اس بارے ميں كوئی حكمت عملى وضع نہ كريں كيونکہ جنسى اعتبار سے تربيت دشوار ترين اور حساس ترين تربيتوں ميں سے ہے اس سلسلے ميں ذرّہ بھر اشتباہ يا غفلت بھى ممكن ہے بچوں كو برائی اور تباہى كى وادى كى طرف كھينچ لے جائے
ماں باپ كى توجہ اس امر كى طرف ہونى چاہيے كہ بلوغ سے پہلے بدنى اور فكرى رشد كے اعتبار سے بچے توليد نسل اور جنسى قوت كو عمل ميں لانے كى صلاحيت نہيں ركھتے اس ليے اللہ تعالى نے بلوغ سے پہلے ان كى جنسى جبلّت كو ان كى طبيعت ميں خفتہ و خوابيدہ ركھا ہوتا ہے بچوں كى انفرادى اور اجتماعى بھلائی بھى اس ميں ہے كہ بلوغ سے پہلے ان كى جنسى قوّت بيدار اور متحرک نہ ہو كيونكہ اگر جنسى قوت بلوغت سے پہلے اور جلدى ہى بيدار ہوجائے تو اس سے بچے كى زندگى بہت سى مشكلات كا شكار ہوجائے گى اور ہوسكتا ہے وہ اس كى بدبختى اور انحراف كے اسباب فراہم كرے
لہذا ماں باپ كو ہر اس علم سے سخت پرہيز كرنا چاہيے كہ جس سے بچوں كى جنس جبلّت كو تحريک ہوسكے اور وہ بيدار ہوسكے اور ان كے ليے ايسے حالات فراہم كريں كہ ان كی نشو و نما تدريجى طور پر اور فطرى لحاظ سے ہو والدين اگر عقل مند اور باتدبير ہوں تو وہ خود اس ضمن ميں تميز كرسكتے ہيں كہ كون سے كام مفيد ہيں اور كون سے مضر
ليكن ہم ياد دہانى كے طورپر كچھ باتيں بيان كرتے ہيں بچوں كى شرمگاہ پر ہاتھ پھيرنا ، وہاں پيار كرنا اخبار و جرائد كى خوبصورت اور ننگى تصويروں كو ديكھنا ، عشقيہ اور تحرک انگيز كانوں اور كہانيوں كو سننا، دوسروں كى شرم گاہ كى طرف ديكھنا يا اس پہ ہاتھ پھيرنا ، دوسروں كے حسن اور خوبصورت كى تعريف كرنا ، اور دوسروں كے ہر حصّہ بدن اور ننگى ٹانگوں كى طرف ديكھنا ماں باپ كى آپس ميں يا دوسروں سے معاشقہ بازى اور جنسى مذاق ، شہوت انگيز مناظر كو ديكھنا يا ان كے بارے ميں سننا اور اس طرح كے ديگر امور كو سرانجام دينا بچے كى جنسى قوت كو تحرک كرنے اور بيدا كرنے كا سبب بنتا ہے اور بچہ بھى ايسى لذت كے حصول كے بارے ميں سوچنے لگتا ہے
Comments
Post a Comment