طنز اور مزاح TANZ OR MAZAH
کام زیادہ ہونےکی وجہ سے سر میں زیادہ ہونے لگا، میں آفس چھٹی لی اور قریبی کلینک جا پہنچا،
جلد ہی میری باری آ گئی، ڈاکٹر کو میں نے سر درد اور ہلکے ٹمپریچر کا بتایا تو ڈاکٹر نے بلڈ پریشر چیک کرنے والی مشین میرے بازو سے لپیٹی اور اس میں ہوا بھرنے لگا، بلڈ پریشر دیکھ کر ایک اٹھ کر کھڑا ہو گیا جیسے اس کے سر پر بم پھٹ گیا ہو، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، وہ اس طرح حیران تھا جیسے بہت انہونی ہو گئی ہو، وہ کبھی میٹر کی طرف دیکھتا کبھی میری طرف،
ڈاکٹر نے کمپوڈر کو آواز دی اور ڈاکٹر صابر کو جلدی بلانے کا کہا،
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صابر روم میں داخل ہوئے، ان کے آنے سے روم روشنی میں اضافہ ہو گیا، کیونکہ ایک ٹیوب لائٹ ان کے سر پر بھی چمک رہی تھی،
ڈاکٹر نے ڈاکٹر صابر کو بلڈ پریشر مشین کا میٹر چیک کروایا تو وہ بھی چونک گیے، انہوں نے دوبارہ ہوا بھر کر چیک کیا اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کو کیا فیل ہو رہا ہے،
مجھے سر درد اور ہلکا سا ٹمپریچر محسوس ہو رہا ہے، بس،
ڈاکٹر مجھے ایسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے جیسے نیپچون سے آیا ہوں،
ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ آپ کا بلڈ پریشر 210 ہے اور اتنے بلڈ پریشر میں انسان کو دماغ کی شریان پھٹ جاتی ہے یا ہارٹ فیل ہو جاتا ہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے کچھ بھی نہیں ہو رہا، آپ فورا ڈاخل ہو جائیں تاکہ آپ کا پروپر علاج شروع کیا جا سکے،
میں نے داخل ہونے سے معذرت کی اور جانےکی اجازت چاہی، اور ڈاکٹر اور ان کے چمچے مجھے داخل کرنے پر تل گئے تھے، بہت مشکل سے اس شرط پر جانے کی اجازت ملی کہ شام کو میں دربارہ چیک اپ کے لیے آوں گا، اور درجن بھر قسم کی ادویات مجھے تھما دیں،
میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو گھر والوں نے میرے ہاتھ میں ادویات دیکھیں تو میرے گرد جمع ہو گئے انکے پوچھنے پر میں نے ساری روداد کہہ سنائی، تو گھر میں جیسے کہرام مچ گیا، مجھے فورا لٹا دیا گیا، ہر فرد پریشان نظر آنے لگا اور میری خاطر خدمت شروع ہو گئی، امی جان تو مجھے کوسے جارہی تھیں،
آپنڑی جانی نا تاں زرا خیال نہیں، ہر ویلے آفس آفس آفس، کم کم کم،
فیمیل سروس نے سوشل میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو خبر پہنچ گئی کہ توصیف کی حالت بہت خراب،
میری تیمار داری کو انے والوں کا تانتا بندھ گیا،
شام تک سر درد میں مزید اضافہ ہو چکا تھا، بہر کیف بھائی مجھے کلینک لے گئے، اور چیک آپ کرنے پر بلیڈ پریشر وہی پہلے والا 210/190 تھا، ڈاکٹر صاحبان اور بھائی نے زبردستی مجھے ایدمٹ کر دیا کلینک میں، میں دہائیاں دیتا رہا کہ میں ٹھیک ہوں لیکن میری ایک نہ سنی گئی اور ڈاکٹر اور کمپوڈر حضرات مجھ پر انجیکشن، سیرپ اور گولیاں آزمائے لگے پوری رات میری گرد پہرہ دیا جاتا رہا کہ میں کہیں بھاگ نہ جاؤں،
صبح صبح میری بہنیں سسرال سے میکے اور میلے ہاسپتل پہنچ چکی تھیں، میرے پاس تو اس طرح جھرمٹ بنا ہوا تھا جیسا میں پانچ منٹ بعد مر جاؤں گا اور ہر فرد مجھ بات اور ہمدردی کرنا چاہتا ہو،
ڈاکٹر صابر ہسپتال پہنچے تو میرا بلڈ پریشر چیک کیا ابھی تک 210/190 ہی تھا، ڈاکٹر صاحب بہت پریشان نظر آ رہے تھے، اور میں سر درد کی وجہ سے بے چین،
ڈاکٹر صاحب نے کچھ سوچ کر دوسری مشین لانے کو کہا،
دوسری مشین سے میرا بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ پرسکون نظر آنے لگے، اور مسکرا کر کہا کہ میں معذرت خواہ ہوں آپ کا بلڈ پریشر بالکل نارمل ہے، پہلے والی مشین خراب تھی،
اس کی مسکراتی شرمندہ بوتھی دیکھ کر میرا دل کر رہا تھا میں اس کا انڈے جیسا سر پھوڑ کر آملٹ بنا ڈالوں، اس کی خراب مشین کی وجہ سے جو کچھ مجھے اور میرے گھر والوں جھیلنا پڑا تھا، میں ہی جانتا ہوں،
جلد ہی میری باری آ گئی، ڈاکٹر کو میں نے سر درد اور ہلکے ٹمپریچر کا بتایا تو ڈاکٹر نے بلڈ پریشر چیک کرنے والی مشین میرے بازو سے لپیٹی اور اس میں ہوا بھرنے لگا، بلڈ پریشر دیکھ کر ایک اٹھ کر کھڑا ہو گیا جیسے اس کے سر پر بم پھٹ گیا ہو، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، وہ اس طرح حیران تھا جیسے بہت انہونی ہو گئی ہو، وہ کبھی میٹر کی طرف دیکھتا کبھی میری طرف،
ڈاکٹر نے کمپوڈر کو آواز دی اور ڈاکٹر صابر کو جلدی بلانے کا کہا،
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صابر روم میں داخل ہوئے، ان کے آنے سے روم روشنی میں اضافہ ہو گیا، کیونکہ ایک ٹیوب لائٹ ان کے سر پر بھی چمک رہی تھی،
ڈاکٹر نے ڈاکٹر صابر کو بلڈ پریشر مشین کا میٹر چیک کروایا تو وہ بھی چونک گیے، انہوں نے دوبارہ ہوا بھر کر چیک کیا اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کو کیا فیل ہو رہا ہے،
مجھے سر درد اور ہلکا سا ٹمپریچر محسوس ہو رہا ہے، بس،
ڈاکٹر مجھے ایسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے جیسے نیپچون سے آیا ہوں،
ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ آپ کا بلڈ پریشر 210 ہے اور اتنے بلڈ پریشر میں انسان کو دماغ کی شریان پھٹ جاتی ہے یا ہارٹ فیل ہو جاتا ہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے کچھ بھی نہیں ہو رہا، آپ فورا ڈاخل ہو جائیں تاکہ آپ کا پروپر علاج شروع کیا جا سکے،
میں نے داخل ہونے سے معذرت کی اور جانےکی اجازت چاہی، اور ڈاکٹر اور ان کے چمچے مجھے داخل کرنے پر تل گئے تھے، بہت مشکل سے اس شرط پر جانے کی اجازت ملی کہ شام کو میں دربارہ چیک اپ کے لیے آوں گا، اور درجن بھر قسم کی ادویات مجھے تھما دیں،
میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو گھر والوں نے میرے ہاتھ میں ادویات دیکھیں تو میرے گرد جمع ہو گئے انکے پوچھنے پر میں نے ساری روداد کہہ سنائی، تو گھر میں جیسے کہرام مچ گیا، مجھے فورا لٹا دیا گیا، ہر فرد پریشان نظر آنے لگا اور میری خاطر خدمت شروع ہو گئی، امی جان تو مجھے کوسے جارہی تھیں،
آپنڑی جانی نا تاں زرا خیال نہیں، ہر ویلے آفس آفس آفس، کم کم کم،
فیمیل سروس نے سوشل میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو خبر پہنچ گئی کہ توصیف کی حالت بہت خراب،
میری تیمار داری کو انے والوں کا تانتا بندھ گیا،
شام تک سر درد میں مزید اضافہ ہو چکا تھا، بہر کیف بھائی مجھے کلینک لے گئے، اور چیک آپ کرنے پر بلیڈ پریشر وہی پہلے والا 210/190 تھا، ڈاکٹر صاحبان اور بھائی نے زبردستی مجھے ایدمٹ کر دیا کلینک میں، میں دہائیاں دیتا رہا کہ میں ٹھیک ہوں لیکن میری ایک نہ سنی گئی اور ڈاکٹر اور کمپوڈر حضرات مجھ پر انجیکشن، سیرپ اور گولیاں آزمائے لگے پوری رات میری گرد پہرہ دیا جاتا رہا کہ میں کہیں بھاگ نہ جاؤں،
صبح صبح میری بہنیں سسرال سے میکے اور میلے ہاسپتل پہنچ چکی تھیں، میرے پاس تو اس طرح جھرمٹ بنا ہوا تھا جیسا میں پانچ منٹ بعد مر جاؤں گا اور ہر فرد مجھ بات اور ہمدردی کرنا چاہتا ہو،
ڈاکٹر صابر ہسپتال پہنچے تو میرا بلڈ پریشر چیک کیا ابھی تک 210/190 ہی تھا، ڈاکٹر صاحب بہت پریشان نظر آ رہے تھے، اور میں سر درد کی وجہ سے بے چین،
ڈاکٹر صاحب نے کچھ سوچ کر دوسری مشین لانے کو کہا،
دوسری مشین سے میرا بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ پرسکون نظر آنے لگے، اور مسکرا کر کہا کہ میں معذرت خواہ ہوں آپ کا بلڈ پریشر بالکل نارمل ہے، پہلے والی مشین خراب تھی،
اس کی مسکراتی شرمندہ بوتھی دیکھ کر میرا دل کر رہا تھا میں اس کا انڈے جیسا سر پھوڑ کر آملٹ بنا ڈالوں، اس کی خراب مشین کی وجہ سے جو کچھ مجھے اور میرے گھر والوں جھیلنا پڑا تھا، میں ہی جانتا ہوں،
Comments
Post a Comment