وصیت امام علی علیہ السلام

وصیت امام علی علیہ السلام 

جس وقت امام علیہ السلام کو ضربت لگی اس وقت کوفہ کے تمام طبیب آپ کے پاس جمع ہوگئے ۔ ان لوگوں کے درمیان سب سے ماہر اثیر بن عمرو تھا جو زخموں کا علاج کرتا تھا۔ جب اس نے زخم دیکھا تو حکم دیا کہ گوسفند کا پھیپھڑا جو ابھی گرم ہو (تازہ ہو) لایا جائے اور پھر اس نے پھیپھڑے میں سے ایک رگ نکالی اور زخم پر رکھا اور جب اسے باہر نکالا تو کہا :یا علی! اپنی وصیتیں بیان کیجیۓ ،کیونکہ ضربت کا زخم دماغ تک پہونچ گیا ہے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس وقت امام علیہ السلام نے کاغذ اور دوات منگایا اور اپنی وصیت میں اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا یہ وصیت اگرچہ حسنین سے کی ہے مگر حقیقت میں یہ تمام انسانو ں کے لئے رہتی دنیا تک ہے۔ اس وصیت کو بعض محدثین اور مورخین نے جو سید رضی سے پہلے اور ان کے بعد میں گزرے ہیں سند کے ساتھ نقل کیاہے۔ لیکن اصل وصیت اس سے زیادہ ہے جسے مرحوم سید رضی نے نہج البلاغہ میں تحریر کیا ہے۔ 

''اُو صیکما بتقوی َ اللہ واَن لاٰ تبغیا الدُّنْیٰا وانِ بَغتْکَمٰا ولاٰ تأ سفا عَلیٰ شیئٍ مِنْھاَ زُویَ عَنْکُماٰ و قُوْلاٰ بِا لحقِّ وَاعْملاٰ للأجرِ وکُو نٰا لِلظَّا لم خَصْما و للمظلومِ عَوْناً۔''

'' میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ تقوائے الہی اختیار کئے رہنا اور دنیا تمھاری کتنی ہی طلب گار ہو تم دنیا کے طلب گار نہ بننا اور دنیا کی جس چیز سے تمھیں محروم کردیا جائے اس کا غم نہ کھانا،جو کہو حق کی حمایت میں کہواور جوعمل کرو اجر الہی کیلئے کرو ،ظالم کے مخالف او ر مظلوم کے مدد گار رہو''۔

اُ وْصیکمٰا و جَمیعَ وَلَدِیْ وَ اھْلِی وَمَنْ بلغہ کتا بی بتقویَ اللّٰہِ ونَظْمِ اَمْرِ کُمْ وَ صَلاحِ ذاتِ بَیْنِکُمْ، فاِنّی سَمِعْتُ جَدَّ کُمْ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یَقَوْلَُ'' صَلاحُ ذاتِ البَین اَفْضلُ مِنْ عَا مَّةِ الصَّلاة و الصِّیام''۔

''میں تم دونوں کو اور اپنی تمام اولاد کو اور اپنے کنبہ کواور جس کے پاس بھی یہ میری تحریر پہونچے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقوی اختیار کریں ، اپنے ہر کام میں نظم (وضبط) کا خیال رکھیں اور باہمی تعلقات درست رکھیںکیونکہ میں نے تمھارے نانا حضرت محمد مصطفی ۖکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا ایک سال نماز روزے سے افضل ہے''۔

''اللّٰہ اللّٰہ فیِ الا یتَام فَلاَ تَغِبُّواأفواھَھُمْ ولاٰ یضیْعوُا بحَضْرَ تِکُم.ْ واللّٰہ اللّٰہ فِیْ جِیْرانِکُمْ فَانِّھم وَصِیَّةُ نَبِیِّکُمْ. مَا زَاَل َیوصِیْ بِھِمْ حَتّٰی ظَنَنّٰا أ نَّہ سَیُوَرِّ ثُھُمْ''

''دیکھو !یتیموں کے بارے میں اللہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ انہیں فاقہ کرنا پڑیاور نہ ایسا ہونے پائے کہ وہ تمھارے سامنے (کسمپری کی حالت میں ) ضا ئع ہوجائیں اور خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں (کے حقوق)کا خیال رکھنا،کیونکہ وہ تمھارے نبی کی وصیت (کے مصداق) ہیں ،آپ برابر ان کے بارے میں وصیت و نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ انھیں حق وراثت بھی عطا کرنے والے ہیں''۔

''وَاللّٰہ اللّٰہ فِیْ الْقُرانِ لاٰ یَسبقُکُمْ با لْعَمَل بہ غَیْرُ کُمْ.وَاللّٰہ اللّٰہ فِیْ الصَّلاةِ فَانَّھا عَمُوْدُ دِیْنِکُمْ۔وَاللّٰہ اللّٰہ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ لاٰ تَخَلُّوْہُ مٰا بَقیِتُمْ فَاِنَّہ اِن تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا''۔

''اور دیکھو قرآن کے بارے میں خدا کو نہ بھولنا ،ایسا نہ ہوکہ اور لوگ اس (کے احکام) پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیو نکہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے ۔ اور خدا را اپنے پرودگار کے گھر کو جب تک جیتے رہو خالی نہ چھوڑنا کیو نکہ اگر اسے چھوڑ دیا گیا توتمہیں مھلت نہیں ملے گی اور بلا میں گرفتار ہو جائو گے''۔

''وَاللّٰہ اللّٰہ فِی الجھادِ بأ مْوَ الکُم وَانفسِکُم وَالسنتکم فی سَبیلِ اللّٰہ وعَلَیکُم بالتّواصُل والتبٰاذُلِ وَایّاکُم وَالتّدابُرو التَّقاطُع، لاٰ تَتْرُکُوا الأمْرَ بِالمعُروفِ والنِّھی عَنِ المنکر فَیُوَ لیّٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُ کُمْ ثمَّ تَدْعُوْنَ فَلاٰیُستجٰابُ لَکُمْ''

''اور خدا کی راہ میں مال، جان اور زبان سے جہاد کرنے کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا۔ باہمی تعلقات کو استوار رکھنا اور آپس کی داد و دہش میں فرق نہ آنے دینا اور خبر دار نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنا، نہ ایک دوسرے سے الگ رہنا ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کردار لوگ تم پر مسلط کر دئیے جائیںگے پھر دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہونگی۔

****-- پھر ارشاد فرمایا:--****

اے اولادِعبد المطلب! خبردار ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ(میر ے قتل کا بدلہ لینے کے لئے )تم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو '' امیر المومنین قتل کر دئے گئے ''

''ألاٰ لاٰ تَقتُلُنَّ بَیْ اِ لا قَا تِلیْ، اُنْظُرُوْ اِذَا أنَامِتُّ مِنْ ضَربَتِہِ ھٰذہِ فَا ضْرِبُوْہُ ضَرْبَةً بِضَرْبة، وَلاٰ تُمَثّلُوْا بِالرّجُلٍ فَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ، یَقْولُ''اِیاکُمْ و المُثلَةَ وَ لَوْ بِالْکلْبِ الْعَقُوْرِ'' ۔ 

''یاد رہے کہ میرے قصاص کے طور پر صرف میرے قاتل کو ہی قتل کرنا ، اس کی ضربت سے اگر میری موت واقع ہوجائے تو قاتل کو ایک ضربت کے بدلے ایک ہی ضربت لگانا اور (دیکھو) اس شخص کی لاش مثلہ نہ کی جائے(ناک ،کان اور اس کے دوسرے اعضاء نہ کاٹے جائیں) کیونکہ میں نے رسول خدا ۖ کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''خبردار کسی کی لاش کو مثلہ نہ کرنا اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو''

Comments

Popular Posts